گھڑی ہوئی پارسائی

وہ چیزجسے سب لوگ سوشل میڈیا کہتے ہیں اسے میں کچھ اورکہا کرتا ہوں۔

اس نے ہماری سماجی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرکے رکھ دیا ہے اور جتنا انقلاب برپا کیا ہے، اتنا ہی فتور بھی مچا کے رکھ دیا ہے۔ جس طرح ٹی وی چینلز بریکنگ نیوزکے چکر میں ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ کا نمونہ ہیں اسی طرح سوشل میڈیا بھی کچّے پکّے ذہنوں کا کھیل بنا ہوا ہے۔ اس میں جو خبریں، خیالات اورتصاویر شیئر کی جاتی ہیں وہ آگ کی طرح پھیل پہلے جاتی ہیں، ان کی تصدیق یا تردید بعد میں ہوتی ہے۔

’’فوٹو شاپ‘‘ گرافکس کا ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام ہے جس میں تصاویر کی بڑی حیران کن ایڈیٹنگ کی جاسکتی ہے۔ مختلف تصاویر کو ملا کے، جوڑ کے اور ایک دوسرے میں مدغم کرکے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح عجیب عجیب تخلیقات سامنے آتی ہیں۔ یہ کام تشہیری اور تفریحی مقاصد کے لیے بھی ہوتا ہے، تخریبی مقاصد کے لیے بھی اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے یا انھیں تسکین پہنچانے کے لیے بھی۔

حقیقت میں ان کی بنیاد ہی جھوٹ ہوتی ہے۔ میں کبھی نہیں سمجھ سکا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کا مشن کیا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ جن چیزوں پر سوشل میڈیا کے متوالے زاروقطار فدا ہورہے ہوتے ہیں میری ان پر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ آئیے! آپ بھی اس کی کچھ دلچسپ مثالیں دیکھیے۔

ایک تصویر میں ایک بہت بڑا پتھر ہے جو مستقلاً زمین سے ایک فٹ اوپر ہوا میں معلق ہے اور تماشائی اِردگرد کھڑے اسے دیکھ رہے ہیں۔ فیس بُک میں اس تصویر کے نیچے لوگ جذباتی تبصرے کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ! دوسرے منظر میں مسجد کے صحن میں پڑا ہوا ایک گنبد ہے جو خود ہی اُڑتا ہوا جاکے مسجد کے ایک مینار کے اوپر نصب ہوجاتا ہے۔ پبلک دیکھ رہی ہے اور چیخ چیخ کر قدرت کو داد دے رہی ہے۔

اسی طرح گزشتہ دنوں گستاخانہ فلم کا بہت ذکر رہا۔ ابھی تک ہورہا ہے بلکہ یوٹیوب بند ہونے کی وجہ سے میرے جیسے آوارہ مزاج تو روز ہی یاد کرتے ہیں۔ جن دنوں اس واہیات اور گھٹیا فلم کی وجہ سے گلیوں میں توڑ پھوڑ اور سینما گھروں میں آگ کا راج تھا ان دنوں ایک تصویر بڑی تیزی سے شیئر کی جارہی تھی، اس میں کوئی بلڈنگ ڈھے گئی تھی اور چاروں طرف لوگ کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔

خداجانے کہاں کی اور کون سے موقع کی تصویر تھی، لیکن اس کے نیچے لکھا تھا ’’امریکا میں ایک سینما ہال میں گستاخانہ فلم ریلیز ہوئی تو اس جگہ زلزلہ آگیا اور سینما ہال گِر گیا۔‘‘ ایسی خبر پوری دنیا کے میڈیا میں نہ سنی نہ دیکھی، لیکن اس کے باوجود لوگ اس ’’معجزے‘‘ پر واہ واہ کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے عبرت پکڑ رہے تھے۔ اب اس کے بارے میں کیا عرض کروں۔ مذہب کا کوئی مضبوط ستون ہی بتا سکتا ہے کہ ایسی جعلسازیوں اور جھوٹ سے لوگوں کے اعمال نامے درست ہونے لگیں تو اسے کیا کہیں گے؟

برما کے مسلمانوں پر بے حساب ظلم ہورہا ہے، ہولو کاسٹ کی کوئی حقیقت تھی کہ نہیں لیکن برما میں معاملہ اس سے بھی بدتر ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک حصہ اس کے بارے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کا کام کر رہا ہے۔ اچھا کر رہا ہے لیکن اس مقصد کے لیے قتلِ عام، زندہ جلانے اور خون خرابے کی جو لاتعداد تصاویر جاری کی جارہی ہیں وہ ہرگز تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ بہت سی فوٹوشاپ کا نتیجہ دکھائی دیتی ہیں اور کچھ یوں لگتا ہے کہ جیسے دنیا بھر کے واقعات کو جمع کرکے انھیں برما کے واقعات قرار دے دیا جاتا ہے تاکہ ہر طرح کی ہمدردیاں اکٹھی کی جاسکیں۔ شاید اسی طرح جیسے رمشا مسیح والے واقعے میں اصلی رمشا کی بجائے دنیا بھر کے میڈیا میں ایک زلزلہ زدہ معصوم کشمیری بچی کی تصویر عام کردی گئی تھی۔ ایسی غلط بیانی یہ کرتے ہیں تو اپنا مفاد دیکھ کے ’’وہ‘‘ بھی کر ڈالتے ہیں۔

اٹلی کا خوابناک شہر وینس، اس کے مکانوں کے دَر پانی میں کھلتے ہیں، جہاں کار کی بجائے کشتی بندھی ہوتی ہے، یہ سمندر کا پانی ہے، ظاہر ہے کہ گہرا بھی ہے، اس شہر کی ایک تصویر شایع ہوئی جس کے نیچے سائبر ملّاؤں نے بہت جذباتی نعرے مارے ہوئے تھے۔ لکھا تھا ’’وینس کی مقامی حکومت نے مسلمانوں کو پہلی بار سرِ عام نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی ہے، اس پر جوق دَر جوق اکٹھے ہوگئے اور پانی بھری گلیوں میں نمازی ہی نمازی بھر گئے۔‘‘ تصویر میں ہر طرف لوگ گھٹنوں تک پانی میں ڈوبے ہوئے سجدہ ریز تھے۔ اب جس نے وینس دیکھا ہے یا جو اس کے بارے میں جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہاں کی گلیوں میں صرف چھ انچ پانی نہیں ہوتا۔

دوسرا یہ کہ سارے شہر کی گلیاں پانی نہیں ہیں، خشک میدان بھی بہت ہیں اور پھر وہاں یکدم ہزاروں مسلمان کہاں سے نکل کے آگئے؟ پھر بھی یہ تصویر شایع ہوتی چلی جارہی ہے اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ اس کے پیچھے کون ہے؟ سونامی نوجوانوں کی تو یہ لائن نہیں ہے اور طالبان۔۔۔۔۔؟ ان کے بارے میں کیا کہوں۔سید مبارک علی تاریخ کو کھنگالتے ہوئے وینس کے پانیوں میں اُتریں تو شاید کوئی خبر لائیں۔

چاند کی سیر کو جانااب کوئی عجوبہ نہیں رہا۔ نیل آرمسٹرونگ گئے تو ان سے منسوب اذان کی آوازوں کی خبر اُڑائی گئی۔ پھر کچھ عرصہ پہلے چاند کی سیر کو ایک گاڑی روانہ ہوئی تو اس کا ٹکٹ ایک بھارتی گوری ’’سنیتا ولیمز‘‘ نے بھی لے لیا۔ وہ اس یاترا سے لوٹی توسائبر طالبان کی تخلیقی قوتوں نے فوراً انگڑائی لی اور اللہ اکبر کی صداؤں کے ساتھ ایک نیا تحفہ پیش کردیا گیا۔ کہا گیا کہ ’’پہلی بھارت خلاباز سنیتا ولیمز نے چاند سے واپسی پر اسلام قبول کرلیا ہے، اس نے چاند پر پہنچ کر زمین کی طرف دیکھا تو ہر طرف اندھیرا اور صرف دو جگہیں روشن نظر آئیں، مکّہ اور مدینہ۔ چاند پر تمام فریکوئنسی فیل ہورہی تھی لیکن اذان کی آواز آرہی تھی۔‘‘

آغا وقار تو ممکن ہے کسی نہ کسی طرح پانی سے کار چلا کے سائنس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال دے، لیکن سنیتا ولیمز کو چاند پر صرف دو روشن مقامات دکھانا اور خلاء میں کوئی آواز سنادینا یہ کونسی سائنس ہضم کرے گی؟ بچپن میں جب کسی نے مجھے ایک بزرگ کی کہانی سنائی تھی کہ کس طرح وہ ایک روحانی عمل کے ذریعے بیٹھے بیٹھے، اپنے بازو کو دس بارہ فٹ لمبا کرتے تھے اور پانی کا گلاس اُٹھالیا کرتے تھے تو میں ڈر گیا تھا، میں سنیتا ولیمز سے بھی ڈرگیا ہوں۔

 

طارق محمود میاں

بشکریہ ایکسپریس

تبصرہ کریں